شہدا کی یاد میں منعقدہ سمینار سے مقررین کا خطاب، اتحاد و اتفاق پر زور
نثار احمد ٹھوکر
نثار احمد ٹھوکر
اسلام آباد// حریت کانفرنس(ع) پاکستان شاخ کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے مسئلہ کشمیر کے پر امن حل پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کا دیرینہ حل طلب مسئلہ جوخطے میں کشیدگی کا بنیادی سبب ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ کاسبب بن سکتا ہے۔انکا کہنا تھا کہ کشمیر بنیادی طور پرپاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کی جڑ ہے جس کی وجہ سے اب تک دونوں ملک تین جنگیں لڑچکے ہیں۔13جولائی 1931کے شہداءکی یاد میں منعقدہ اس سیمینار میں سینئر صحافی ، قلم کار اور حد متارکہ کے دونوں جانب تعلق رکھنے والے سیاسی اور دینی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔اس موقعہ پر جماعت اسلامی(پاک زیر انتظام کشمیر) کے سربراہ عبدلرشید ترابی، جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر سردار خالد ابراہیم،کنوینرسید ےوسف نسیم، محمود احمد ساغر، معروف قلم کار ارشاد محمود اور حریت کانفرنس کے دیگر نمائندوں نے بھی خطاب کیا۔شہد اءکشمیر کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ 13جولائی کا واقعہ اسلامی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ جس میںاذان کے آغاز سے لیکر اختتام اذان تک 21کشمیریوں نے جام شہادت نوش کیا۔انکا کہنا تھا کہ کشمیر قوم نے1931میں ڈوگرہ حکومت کیخلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنے حقوق کے لئے جد وجہد کا باقاعدہ آغازکیا۔اس تاریخ ساز واقعے کو موجودہ جدوجہد کا ایک اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ کشمیر ی گذشتہ کئی دہائیوں سے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔انہوں نے کہاکئی دہائیوں پر محیط کشمیری عوام کی سیاسی جدو جہد اورانکی بے مثال قربانیاں اس بات کی متقاضی ہیں کی تمام آزادی پسند جماعتیں متحد و متفق ہوںتاکہ موجودہ تحریک کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔انکا کہنا تھا کہ حریت قائدین کے مابین اختلاف اور نا اتفاقی سے کشمیر کاز کو اندرونی اور بیرونی سطح پر نقصان پہنچا ہے۔دنیا میں بدلتے ہوئے منظر نامے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں سیاسی قیادت میںاجتماعی سوچ ، اتحاد و اتفاق ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے کشمیری قوم کو مایوسی کے اندھیروں اورChaosسے باہر نکالا جاسکتا ہے۔اتحاد کے ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حد متارکہ کے دونوں جانب موجودسیاسی قیادت خود احتسابی کے عمل سے گذر کر آئندہ کے لئے ایک واضح اور جامع حکمت عملی وضح کرے تاکہ تحریک کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں لیڈرشپ کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور بنیادی اصولوں پر کمپرومائز کئے بغیرایک طریقہ کار وضع کر لینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اصول اور حکمت عملی میں فرق ہے، حکمت عملی تبدیل ہوسکتی ہے لیکن اصول نہیں بدلتے۔انہوں نے کہا کہ تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کو ایک طرف رکھ کر کشمیر کاز کے لئے اپنی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ تحریک کو ایک منظم اور مضبوط ادارے کی ضرور ت ہے لیکن 20سال گذر گئے پر آج تک کوئی ٹھوس ادارہ قائم نہ ہوسکا۔انہوں نے کہا کہ وقت آچکا ہے کہ ہمیں سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا چاہیے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے حوالے مقررین نے کہا کہ حکومت پاکستان کوبھارت کے ساتھ کسی بھی مذاکراتی عمل کا آغاز کرنے سے قبل کشمیری قیادت سے مشورہ کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر ی مذاکرات کے خلاف نہیں تاہم بات چیت کشمیری قوم کی قربانیوں کی قیمت پر نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے پاکستان کی موجودہ حکومت پر کڑی نقطہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف جسکی حکومت سے کشمیری قوم کو کافی امیدیں وابستہ ہیں نے آج تک کشمیر کا نام نہیں لیا۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنے دورہ مظفر آباد کے دوران بھی کشمیریوں کی موجودہ تحریک کے حوالے ایک لفظ تک نہیںبولا اور ےہاں تک کہ انہوں نے پارلمینٹ میں اپنی پہلی تقریرمیں بھی کشمیر کا ذکر نہیں کیا جو انتہائی افسوسناک ہے۔
No comments:
Post a Comment