Thursday, September 6, 2012

مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر قیام امن کی کوششیں خود فریبی اور وقت کا ضیاع ہے:امان اللہ خان


قیام امن کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ایک مخصوص ٹائم فریم کے اندر اندر حل کیا جانا چاہیے
نثار احمد ٹھوکر
اسلام آباد:جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سرپرست اعلےٰ امان اللہ خان نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو پسِ پشت ڈال کرخطہ میں قیام امن کی کوششیں خود فریبی، وقت کا ضیاع اور عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے علاوہ کچھ نہیں۔نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ 65سال سے التواء میں پڑے ہوئے اور فریقین کیلئے ماضی میں انتہائی نقصاندہ اور مستقبل کیلئے انتہائی خطر ناک ثابت ہونے والے مسئلہ کشمیر کوکسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔انکا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین دو خونخوار جنگوں اور خود کشمیریوں کی طرف سے شروع کی گئی 3بار کی عوامی مزاحمتی تحریکوں( جو کہ ہنوز جاری ہے) کے نتیجے میں لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ اربوں ، کھربوں مالیت کی املاک تباہ ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتنی سنگین نوعیت کے مسئلہ کو پسِ پشت ڈال کر امن کے گیت گانا دونوں ملکوں کے غیر ذمہ دارانہ طرزِ فکر و عمل کا عکاس اور مجرمانہ غفلت کا ارتکاب ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ مسئلہ پرامن ، منصفانہ، دیرپا اور فریقین کیلئے آبرومندانہ طریقے سے حل نہیں کیا جاتا تو دونوں ملکوں کے کروڑوں انسانوں کے سروں پر تیسری اور بلاشبہ ایٹمی جنگ کے خطرات ہمیشہ منڈلاتے رہیں گے۔
امان اللہ خان نے بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو پسِ پشت ڈالنے ، مذاکرات میں اس اہم مسئلہ کو مسلسل نظر انداز کرنے اور مسئلہ کے حل کے حوالے سے سنجیدہ اور عملی اقدامات نہ اٹھا ئے جانے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے آمدہ وزرائے خارجہ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو سر فہرست رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ کی وجہ سے کشمیریوں کی 4نسلوں نے بڑی تعداد میں جانی اور مالی نقصان کو برداشت کیا ہے اس لئے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اب یہ تنازعہ کشمیریوں کی اگلی نسل تک منتقل نہ ہو بلکہ سنجیدہ اور نتیجہ خیزمذاکراتی عمل کا آغازکر کے جموں کشمیر کے حقیقی نمائندوں کو بنیادی فریق کی حیثیت سے اس عمل میں شامل کرتے ہوئے اسے منصفانہ ، قابلِ عمل،دیرپا اور فریقین کیلئے آبرومندانہ طریقے سے حل کیا جائے۔
امان ا للہ خان نے وضاحت سے کہا کہ لبریشن فرنٹ بھارت اور پاکستان کے مابین بڑھتے ہوئے سیاسی و معاشی تعلقات اور امن عمل کیخلاف نہیں ہے بلکہ دعا گو ہیں کہ یہ تعلقات مزید مضبوط ہوں تاکہ دونوں ملک بین الاقوامی سطح پر فلاح وبہبود اور امن عامہ کے قیام کیلئے اعلیٰ کردار ادا کریں تاہم انکا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر کو پرامن، منصفانہ ، دیرپا اور فریقین کیلئے آبرومندانہ طریقے سے حل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک (بھارت و پاکستان )اگر حقیقی معنوں میں دوستانہ تعلقات بحال کر کے ترقی کی طرف گامز ن ہونا چاہتے ہیں تو انہیں65سالہ پرانے مسئلہ کشمیر کو فوری اور ایک مخصوص ٹائم فریم کے اندر اندر حل کر نا چاہئے کیونکہ کشمیر کا منصفانہ حل دونوں ملکوں کے درمیان دائمی دوستی کے پل میں تبدیل ہوسکتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کیلئے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے فارمولا پیش کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ منقسم ریاست جموں کشمیر کو دوبارہ متحد کر کے وہاں ایک ایسی آزاد وخودمختار مملکت کا قیام عمل میں لا یا جائے جس کا طرز حکومت جمہوری ،وفاقی اور تمام ریاستی باشندوں کے لئے مساویانہ حقوق کی حامل ہو اور اس کے تعلقات دنیا بھر کے ممالک سے باالعموم اور اپنے ہمسایوں بشمول بھارت اور پاکستان سے بالخصوص دوستانہ ہوں۔انہوں نے مزیدکہا کہ پاکستان نے 11جولائی1947ء کو قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح کے ایک پالیسی بیان کے ذریعہ کشمیر کے حق خودمختاری کو تسلیم کیا تھا جبکہ بھارت نے گوپالا سوامی آئنگر کی سلامتی کونسل میں 15جنوری 1948ء کی تقریر میں کشمیر کو خودمختاری دینے کے حق کو تسلیم کیا تھا۔ انہوں نے فارمولے کے دس اہم فائدوں کی بھی وضاحت کی جن میں سے ایک یہ ہے کہ مجوزہ فارمولہ مسئلہ کشمیر کو کسی بھارتی ،پاکستانی یا کشمیری کا ایک قطرہ خون بہائے بغیر حل کرتاہے اتنے بڑے فائدے حاصل کرنے کیلئے بھارت اور پاکستان کو صرف اتنا کرنا ہوگا کہ وہ کشمیریوں کو ریاست کے وہ علاقے واپس کردیں جن پر اس وقت ان کا قبضہ ہے تاکہ مجوزہ خودمختار کشمیر بنایا جاسکے ۔
فرنٹ کے سرپرستِ اعلےٰ نے پاکستانی قیادت کے ساتھ ساتھ اہلِ پاکستان سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ وہ ریاست جموں کشمیر کی مکمل خودمختاری کی حمایت کریں جس کے نتیجہ میں بھارت کے جمہوریت اور انصاف پسند عوام اور عوامی نمائندے بھی ہمارے اس حق کی حمایت پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
امان اللہ خان نے کہا کہ مجوزہ فارمولے کوحال ہی میں ایک اپیل کی شکل میں بھارت و پاکستان اور طرفین کی کشمیری حکومتوں، سیاسی جماعتوں کے قائدین، انسانی حقوق کی تنظیموں،ذرائع ابلاغ کے نمائندوں ، دانشوروں کے علاہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، سلامتی کونسل کے ممبران اور 35اہم ممالک کے اقوامِ متحدہ میں نمائندگان کو بھی ارسال کیا گیا ہے۔ جسمیں تمام متعلقہ حلقوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس فارمولے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مثبت اور نتیجہ خیز کردار ادا کریں۔

No comments:

Post a Comment