Sunday, March 4, 2012

پاک زیر انتظام کشمیر کو مزید بااختیار بنانے کیلئے آئینی ایکٹ میں ترمیم کا مطالبہ پاک زیر انتظام کشمیر کو مزید بااختیار بنانے کیلئے آئینی ایکٹ میں ترمیم کا مطالبہ


اسلام آباد // پاک زیر انتظام کشمیر کے شہر میر پور میںسنٹرفار پیس ڈولپمنٹ اینڈ ریفارم (  سی پی ڈی آر )کے زیراہتمام منعقدہ کانفرنس میں شرکاء نے خطے میں نافذالعمل آئینی ایکٹ 1974 میں فوری طور پر ترامیم کا بل اسمبلی میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ خطے میں ایک بااختیار حکومت قائم کرنے کے ساتھ ساتھ آزادانہ نظام حکومت کو یقینی بنایا جاسکے۔شرکاء نے کشمیر کونسل کے انتظامی اختیارات کے خاتمے، آزادالیکشن کمیشن کی تشکیل،مہاجرین کی نشستوں پر شفاف الیکشن کے انعقاد اور ججوں کی تقریری کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کابھی مطالبہ کیا۔ سنٹرفار پیس ڈولپمنٹ اینڈ ریفارم (  سی پی ڈی آر )کے زیر اہتمام پاک زیر انتظام کشمیر اورپاکستان کی حکومتوں کے مابین آئینی،انتظامی اور مالی انتظامات کے موضوع پرشائع کردہ رپورٹ پر گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے جسٹس(ر) بشارت احمد شیخ نے کہا ہے کہ ایکٹ 1974میں فوری طور پر بنیادی ترامیم متعارف کرائی جائیں کیونکہ یہ ایکٹ خطے کے عوام کے حقوق غضب کرنے کا سبب بن رہا ہے۔انکا کہنا تھا کہ یہ ایکٹ ایک غیر جمہوری ، غیر شفاف اور دوہراحکومتی نظام قائم کرتاہے اور منتخب حکومت کا کردار محدود کردیتاہے۔انہوں نے مزید کہاکہ کشمیر کونسل کو انتظامی اختیارات دینے کا کو ئی جواز نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کونسل کا دائرہ کار محض آزادحکومت اور پاکستان کے مابین رابطہ کا ر کا ہوناچاہیے۔یہاں جاری ایک پریس بیان کے مطابق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لبریشن لیگ کے صدر جسٹس مجید ملک نے کہا کہ آزادخطے کے معاملات پر بحث کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو بھی پس منظر میں رکھنا ضروری ہے کیونکہ ’’آزادکشمیر آئینی طور پر نہ پاکستان کا حصہ ہے اور نہ ہی ایک خود مختار ریاست ہے۔‘‘انکا کہنا تھا کہ آزادخطے کو موجودہ پستی تک پہنچانے کا ذمہ دار حکمران طبقہ اور سیاستدان ہیں۔انہوں نے بتایا کہ 1970 کے عشرے میں جب آزادخطے کی سیاسی قیادت نے متحد ہوکر پاکستان سے جمہوری مطالبہ کیا تو حکومت پاکستان نے ہمارے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔جسٹس مجید ملک نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اکثر اوقات آزادخطے میں ایسی قیادت برسرقتدار آئی ہے جو شاہ سے زیادہ تاج کی وفادار رہی ہے جس کی وجہ سے پورا نظام حکومت تباہی کے کنارے پر کھڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ آزادخطے میں آئین ساز اسمبلی قائم کی جائے جو تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خطے کے موجودہ آئین کو ازسر نو مرتب کرے۔اس موقعہ پر چیئرمین سی پی ڈی آر طارق مسعود ، بارایسوسی ایشن کے سابق صدر مرزا ظفر حسین  اورصدر سی پی ڈی آر ذوالفقار عباسی نے آزادکشمیر کی معاشی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگلے دس برس میں دولاکھ افراد کیلئے روزگار کی ضرورت ہوگی جبکہ آزادخطے میں دس ہزار افراد کی بھی سرکاری اور غیر سرکاری شعبہ میں کھپت کی گنجائش نہیں ہے۔انہوں نے کہا حکومت کی غلط صنعتی پالیسوں کی بدولت میرپور کے ایک ہزار صنعتی یونٹس میں سے آٹھ سو بند ہوچکے ہیں۔ذوالفقار عباسی نے آزادخطے میں قائم قومی بینکوں کے کردار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ آزادخطے سے صرف سرمایا جمع کرتے ہیں اور کشمیریوں کا زرمبادلہ تقسیم کرنے کے سوائے کوئی کردار ادانہیں کرتے ہیں۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر سی پی ڈی آر ارشاد محمودنے کہا کہ آزادخطے میں مکمل اتفاق رائے پیدا ہوچکا ہے کہ موجودہ اسٹیٹس کو کسی کو بھی صورت میںقبول نہیں کیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ آزادخطے میں اچھی حکمرانی نہیں قائم کی جاسکی ہے اور لوگ سیاسی قیادت اور حکومتوں کی کارکردگی سے مایوس ہیں۔

No comments:

Post a Comment