پاکستانی ہائی کورٹ میں میمو کمیشن کے سامنے لبریشن فرنٹ سربراہ کا بیان درج
نثار احمد ٹھوکر
نثار احمد ٹھوکر
اسلام آباد// لبریشن فرنٹ کے چیرمین محمد یاسین ملک نے منصور اعجاز کی جانب سے لگائے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی تیس سالہ سیاسی زندگی میں کسی بھی را(RAW)آفیسر سے ملاقات نہیں کی۔اسلام آباد ہائی کوٹ میںتین رکنی میمو کمیشن کے سامنے اپنابیان ریکارڑ کرنے کے دوران یاسین ملک نے کہا کہ وہ سیاسی زندگی کو خیر باد کریں گے، اگر کوئی یہ ثابت کرے کہ وہ را کے کسی چھوٹے یا بڑے افسر سے کبھی ملا ہو۔انہوں نے کمیشن کو بتایا کہ متنازعہ علاقے میںرہتے ہوئے ایسے بے بنیاد اور من گھڑت الزامات کے سنگین نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں۔اخبار ہندوستان ٹائمز کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس اخبار کی رپورٹ کے نتیجہ میں کشمیر کے مشہور معروف ماہر امراض قلب ڈاکٹرعبدل احد گوروکا بہیمانہ قتل ہوا۔ڈاکٹر گور کی مسخ شدہ تصویر کو عدالت میں لہراتے ہوئے ملک نے کہا کہ ایسے ہی حالات میں کئی دوسرے سرکردہ کشمیریوں جن میںکشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر عبدل احد وانی اورجمعیت اہل حدیث کے لیڈر مولانا شوکت کا قتل ہوا۔بھارت کے نامور بیروکریٹ وجاہت حبیب اللہ کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی کتاب میںیہ واضح کردیا ہے کہ ڈاکٹر گور کو کیسے اور کس نے قتل کیا تھا۔ بیان ریکارڑ کرنے سے قبل جسٹس قاضی جو میموکمیشن کی سربراہی کررہے ہیں نے ان سے پوچھا کہ وہ کمیشن کو اپنا تحریر ی بیان پیش کریں تو ملک نے جواب میں کہا کہ منصور اعجاز نے چونکہ سر عام انکی شخصیت کو گزند پہنچانے کی کوشش کی ہے لہذا انہیں توقع ہے کہ کمیشن انہیں اپنے دفاع میںاپنا بیان ریکارڑ کرنے کی اجازت دیں گے، جو سراسر عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کی درستگی کیلئے میں یہ واضح کرنا چاہونگا کہ میں اپنی 30سالہ سیاسی جدوجہدکے دوران نہ کبھی را کے ڈپٹی چیف سے ملا ہوں اور نا ہی اسکے سربراہ سے۔انہوں نے کہاکہ وہ 13سال بھارت کے مختلف جیلوں اور عقوبت خانوں میں رہے ہیں اور 1984میں انہیں پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا جب انکی عمر صرف 16سال تھی۔انہوں نے کہا کہ جب وہ زیر حراست تھے تو آئی بی افسران ، کونٹر انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس کے اہلکار انہیں انٹروگیشن کرنے آئے اوریہاں تک کہ آئی بی افسران بھی انہیں جیل میں دیکھنے آئے لیکن وہاں ’’را‘‘کے اہلکار کبھی بھی ُان سے ملنے نہیں آئے۔انہوں نے کہا کہ 1999میں انہوں نے حریت کانفرنس کی رہنمائوں کی گرفتاری کے بعد بطور قائمقام چیرمین کشمیر میں کامیاب الیکشن مخالف مہم چلائی جس سے بھارتی حکمرانوں کو کافی خفت کا سامنا کرنا پڑھا۔انہوں نے کہا کہ اسکے بعد سرینگر میں ایک دستی بم حملہ ہواجس میںڈی جی پولیس نے مجھے پھنسانے کی کوشش کی جبکہ ہماری تنظیم جے کے ایل ایف نے 1994میں یکطرفہ سیزفائر کا اعلان کرتے ہوئے پرامن اور ڈیموکریٹک جدوجہدکا فیصلہ کیا تھا۔انہوں نے کمیشن کو بتایا کہ اس وقعہ کے بعدوجاہت حبیب اللہ جو ان دنوں امریکہ میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے نے صورتحال سے نمٹنے کے لئے نیک نیتی سے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں اے ایس دولت سے ملوں لیکن میں نے ایسا نہیں کیا اور انہیںیہ واضح کیا کہ میں سیاسی جدو جہد کررہا ہوں مجھے کسی سے ملنے کی ضرورت نہیں۔انہوں نے کہا کہ بعد میں انہیں گرفتار کرکے جودھ پور جیل منتقل کردیا گیا۔انہوں نے کہا کہ2000ء میںامریکہ کے اس وقت کے صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت کے بعد انہیں اور کئی دیگر کشمیری رہنمائوں کو جولائی کے مہینے میںرہا کردیا گیا ۔انہوں نے کہا آر کے مشرا جو ٹریک ٹو پر بھی سرگرم تھے بھی چاہتے تھے کہ میںاے ایس دلت سے ملاقات کروں لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔اؑعجاز منصور سے ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نومبر 2001ء میں بھارت کی ریاست ہریانہ میںایک غیر سرکاری تنظیم کے زیر اہتمام سمینار میں انہیںاور کئی دیگر کشمیریوں کو مدعو کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ سمینار کے پہلے روز انہوں نے خطاب کیا جبکہ اگلے روز وہاں ایک قسم کی افواہ چلی کہ امریکہ سے کوئی خاص مہمان آرہا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ خاص مہمان کوئی اور نہیں بلکہ منصور اعجاز تھا جس نے اپنے آپ کو بل کلنٹن کا مشیر خاص کے طور پر پیش کیا۔انہوں نے کہا جیسے وہ تقریر کرنے لگے توانہوں نے مسلمانوں کے خلاف اناپ شناب بکنا شروع کردیا جس سے میرے سمیت ہال میں شرکاء ششدر ہو کر رہے گئے۔انہوں نے کہا کہ ایک کشمیری نے اپنی قمیض پھاڑ دی اور میں نے تیش میں آکر انکی طرف جوتا پھینکر انہیں ڈائس سے ہٹا دیا۔انہوں نے کہا کہ اگلے روز جب وہ ہوٹل برسٹل میں ٹھہرے تھے تو انہیں منصور اعجاز جو تاج ہوتل میں ٹھہرے تھے 20سے زائید ٹیلیفوں کالز آئیںجنکا میں نے جواب نہیں دیا۔انہوں نے بالآخر فون اٹھایا تو انہوں نے مجھ سے معذرت کی اور کہا کہ میں اپنے کئے پر نادم ہوں اور آپ سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ منصور اعجاز نے ساتھ ہی انہیں لنچ کی دعوت بھی دی ۔انہوں نے کہا کہ جب وہ منصور اعجاز ملنے گئے تو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کرنے کے حوالے سے جوکہا وہ ناقابل بیان ہے۔تاہم انہوں نے کمیشن کو بتایا کہ اگر کمیشن جاننا چاہتا ہے تو وہ بتانے کیلئے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ منصور اعجاز سے اس مختصر ملاقات کے دوران کمرے میں ایک اور شخص داخل ہوا جو میرے لئے بالکل اجنبی تھا۔انہوں نے کہا کہ منصور اعجاز نے کہا کہ وہ انکے کوئی کاروباری دوست ہیں۔انہوں نے کہا کہ بغیر تعارف کے اس اجنبی شخص نے میری تعریفیں کرنا شروع کردیا اور کہا کہ وہ ہماری جدوجہد کو سپورٹ کرتے ہیں.انہوں نے کہا کہ اجنبی شخص نے چند منٹ کے وقفے کے بعد مجھ سے کہا کہ آپ اے ایس دولت سے کیوں نہیں ملتے اس پر مجھے شک ہوا اور لنچ کئے بغیر منصور اعجاز کے کمرے سے نکل گیا۔انہوں نے کہا کہ 2001ء میں انہیں پہلی مرتبہ پاسپورٹ ملا اور وہ سرجری کے لئے امریکہ چلے گئے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ میں قیام کے دوران سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے کئی سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔انہوں نے کہا جب انہوں نے منصور اعجاز کے حوالے سے انہوں نے دریافت کیا جس نے ہریانہ میں ہونے والے سمینار میںکلنٹن کا خصوصی نمائندہ ہونے کا ڈرامہ رچایا تھا تو سب ہنس پڑے اور کہا کہ انہیں کبھی بھی ایسی ذمہ داری نہیں دی گئی ۔انہوں نے کمیشن سے کہا کہ ان ملاقاتوں کے بعد وہ اپنے دیگر کئی رفقاء کے ساتھ منصور اعجاز کی رہائش گاہ میں ہاتن نیو یارک کے لئے روانہ ہوئے جہاں میں نے منصور اعجاز کو اس ساری صورتحال سے خبردار کرتے ہوئے ان سے کہا کہ وہ ویک جھوٹا آدمی ہے۔ملک نے مزید کہا کہ جب وہ امریکہ سے واپس آرہے تھے تو انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور پاسپورٹ بھی ضبط کردیا گیا۔تاہم انکا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے وکیل کی مدد سے پاسپورٹ دوبارہ حاصل کیا۔انکا کہنا تھا کہ انہیں پوٹاکے تحت یہ کہہ کر گرفتار کیا گیا کہ پاکستان میں مقیم انکے پارٹی ترجمان نے نیپال کے راستے سے ایک لاکھ امریکہ ڈالرشائستہ نامی لڑکی کے ذریعے ان تک پہنچائے ہیں، جس کا مقصد کشمیر میں تشدد کی کاروائیاں کرنا مقصود ہے۔انہوں نے کہا کہ ان الزامات کے خلاف انہوں نے میڈیا میںاپنے موقف کو واضح کرنا چاہا لیکن انہیں ایسا کرنے سے روک کر گرفتار کر کے چھنی انٹروگیشن جموں منتقل کردیا گیا جہا ں انہیں سخت ٹارچر کیا گیا جس کے نتیجہ میں وہ ایک کان کی سماعت سے محروم ہوئے کیونکہ انہوں نے یہ الزامات ماننے سے انکار کردیا۔انہوں نے کہا کہ 2006ء میں جب انہوں نے بھارت کے وزیر اعظم سے ملاقات کی تو اس ملاقات میں وزیر اعظم کو ایک درجن سے زائد سینئر آفیشلز موجود تھے، جس میںہوم منسٹر، نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اورڈائریکٹر آئی بی بھی شامل تھے لیکن اس اہم ملاقات میں بھی ’’ را‘‘کا کوئی اہلکار یا آفیسر شامل تھا ۔انہوں نے کہا مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے وہ بھارتی سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملتے رہتے ہیں لیکن جہاں تک منصور اعجاز کا بیان یہ سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے۔
No comments:
Post a Comment