نثار احمد ٹھوکر
اسلام آباد //پاک زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم اور مسلم کانفرنس کے صدرسردار عتیق احمد خان نے مسئلہ کشمیر کے فوری حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے غیر وابستہ ممالک کے سربراہان سے اپیل کی ہے کہ وہ رواں ماہ منعقد ہونے والی تہران کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کے حل پر توجہ مرکوز کریں تاکہ جنوبی ایشیا میں امن وسلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنایا جاسکے۔سابق وزیر اعظم نے راولپنڈی اسلام آباد کے صحافیوں کے اعزاز میں دیئے گئے افطار ڈنر سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ تہران میں غیر وابستہ ممالک کی سربراہ کانفرنس ایک ایسے وقت پہ منعقد ہو رہی ہے جب خطہ افرا تفری اور انتشار کا شکار ہے ایسے میں تمام ممالک کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ تہران میںپاکستان کے صدر اور بھارتی وزیراعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی مسئلہ کشمیر کو زیر غور لایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ آج دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر کے حل کی بات ہو رہی ہے لیکن یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں نے مسئلہ کشمیر پر چپ سادھ لی ہے۔تاہم انکا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام نے ہمیشہ اہل کشمیر اور مسئلہ کشمیر پر ہمارا ساتھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم نے کبھی ٹھوس موقف سے پسپائی اختیار نہیں کی بلکہ عوام کی پالیسی آج بھی قائداعظم کی کشمیر پالیسی کے تابع ہے۔سابق صدر پرویز مشرف کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشرف نے بھارت کی سرزمین پرسینہ تان کے بھارتی قیادت پر یہ واضح کیا تھا کہ پاک بھارت بہتر تعلقات کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل انتہائی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس موجودہ حکمران اور حزب اختلاف کی جماعتیں پاکستان کے اندرکشمیر کا نام لینے سے ڈرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کو مسئلہ کشمیر سے پسپائی اختیار کرنے پر قائداعظم اور علامہ اقبال کی روحوں اور پانچ لاکھ کشمیریوں کی قبروں سے معافی مانگنی چاہیے۔ سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی معنیٰ خیز ہے‘۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین برما کے ہجرت کرنے والے متاثرین کی آبادکاری میں ان کی مدد کرے۔ یاد رہے کہ اس موقع پر مسلم کانفرنس کی مرکزی سیکرٹری بیگم مہر النسائ‘ طاہر تبسم کے علاوہ ریاستی اخبارات کے ایڈیٹروں اور سینئر صحافیوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
No comments:
Post a Comment