Wednesday, August 29, 2012

پاک زیر انتظام کشمیرمیں نافذالعمل ایکٹ میں آئینی ترامیم کیلئے کل جماعتی کانفرنس طلب



اسلام آباد// وفاقی وزیر امور کشمیر وگلگت بلتستان منظور احمد وٹو نے پاک زیر انتظام کشمیرمیں نافذالعمل ایکٹ 1974میں آئینی ترامیم کے حوالے سے کل جماعتی کانفرنس بلائی جسمیں خطے کی سیاسی قیادت کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ ترامیم کے حوالے سے مرکزی حکومت کو اپنی آراء اور تجاویز پیش کریں تاکہ جو بھی آئینی ،قانونی اور انتظامی امور وفاقی اور آزادخطے کی حکومتوں کے مابین تنازعات اور الجھائو کا سبب بنتے ہیں انہیں حل کیا جاسکے۔30اگست بروزجمعرات کو منعقد ہونے والی اس اہم کانفرنس میں پاک زیر انتظام کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں جن میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم کانفرنس، پیپلز پارٹی آزاد کشمیر، ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو مدعو کیا گیا ہے۔کشمیر عظمیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے کشمیر ی رہنماء سرادار خالد ابراہیم کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر کی جانب سے انہیں دعوت نامہ ملا ہے تاہم میٹنگ میں شمولیت کا فیصلہ پارٹی کے دیگر رہنمائوں اور قانونی ماہرین کے ساتھ باضابطہ طور پر مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔انکا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے انکی پارٹی کا موقف واضح ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایکٹ1974کا از سر نو جائزہ لیا جائے تاکہ جو بھی معاملات ہوں وہ افہام و تفہیم سے حل کیے جائیں ۔معروف قلم کار اور تجزیہ نگار ارشاد محمود کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے یہ پہل قدمی ایک مناسب قدم ہے جس سے بھرپور فائدہ اٹھا یا جانا چاہیے۔انکا کہنا تھا کہ آزادخطے کے لوگ وفاقی حکومت سے حسن سلوک کی توقع رکھتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ انہیں اندرونی معاملات چلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ اختیاردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزارت امور کشمیرکونسل کے ذریعے آزادخطے کے روزمرہ کے حکومتی امور میں مداخلت سے گریز کرے ۔انہوں نے کہا کہ آج جبکہ مظفرآباد اور اسلام آباد دونوں میں ایک جماعت کی حکومتیں قائم ہیں،یہ ایک سنہری موقع ہے کہ یہ دوہرا نظام حکومت ختم کیا جائے اور تاکہ آزادخطے کے لوگ باوقار انداز میں پاکستان کے ساتھ جڑے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھا موقع ہے کہ منظور احمد وٹو کی دعوت سے بھرپور فائدہ اٹھایا جانا چاہیے کیونکہ یہی ایک واحد طریقہ ہے جو الجھے ہوئے مسائل کو حل کراسکتاہے۔سابق چیف جسٹس منظور گیلانی نے کانفرنس کے حوالے سے کہا کہ وفاقی وزیر کایہ اقدام بنیادی طور پر کونسل کے اختیارات کو ختم کرنے کے حوالے سے جو پریشر بلڈہوا ہے اس سے ریلیز کرنا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ ایک موقع ہے جسکا سیاسی قائدین،حکومت آزاد کشمیر اور پاکستان کو اٹھانا چاہیے تاکہ معاملات کو احسن انداز میں حل کیا جاسکے۔جسٹس گیلانی جو Association for the rights of the people of Jammu Kashmirکے سربراہ بھی ہیں نے کہا کہ انکی انجمن آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں مساوی نظام چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ 18،19اور20ویں آئینی ترامیم کی روشنی میں پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح کشمیر اور گلگت بلتستان کو من و عن تفویض کئے جائیں۔انہوں نے کہا کہ دیگر آئینی اختیارات جو کونسل کو حاصل ہیںوہ کونسل کے بجائے حکومت پاکستان کو برائے راست دئیے جانے چاہیں۔گیلانی نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان کے پارلیمنٹ ،سینٹ اور دیگر آئینی اداروں جیسے National Economic Council،Finance CommissionاورCouncil for Common Interestsمیں نمائندگی دی جائے۔دریں اثناء جموں  و کشمیر مسلم ککانفرنس کے صدر سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے مسلم کانفرنس کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کشمیری جماعتوںکی کانفرنس خوش آئند ہے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیری کونسل کے معاملات کو جلد یکسو کرنا مرکز اور آزاد حکومت دونوں کے مفاد میں ہے۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے پاس ماضی کی غلطیوں کے ازالے کا یہ بہترین موقعہ ہے۔انہوں نے کہا کہ انکی جماعت آئینی اصلاحات اور ایکٹ 74 کی اصل حالت میں بحالی کے لیئے حکومت پاکستان کی ہر ممکن امداد کرنے کے لیے تیار ہے۔سردار عتیق کا کہنا تھا کہ ایکٹ74 میں اصلاحات کرنے اور اسے اصل حالت میں بحال کرنیکی سیاسی اور اخلاقی طور پر بھی پیپلز پارٹی کی ذمہ داری ہے کیونکہ 1976 میںایکٹ 74 کوبگاڑنے اور موجودہ شکل دینے کی ذمہ دار بھی پیپلز پارٹی ہے۔میٹنگ کے دوران حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ آزادخطے کی باقی ماندہ جماعتوںحریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں، جمعیت علماء اسلام آزاد کشمیر جمیعت اہل حدیث ،ایم کیوایم، جموں کشمیر لیبریشن فرنٹ، محاز رائے شماری ، اسلامک ڈیموکریٹک پارٹی ،پاکستان عوامی تحریک آزاد کشمیر کو بھی مدعو کرے۔میٹنگ میںآزادخطے کے سابق صدور میں مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان ،سردار محمد انور خان اور راجہ ذوالقرنین خان کو مدعو نہ کرنے پر افسوس اور حیرت کا اظہار کیا گیا۔

No comments:

Post a Comment