نثار احمد ٹھوکر
شعلہ تھا جل بجھا ہوںہوائیں مجھے نہ دو
میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو
میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو
اسلام آباد//برصغیر کے مایہ ناز گلوکار اور شہنشاہِ غزل مہدی حسن طویل علالت کے بعد بدھ کی دوپہر کراچی کے آغا خان ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ اُن کی عمر 85 برس تھی۔ شہنشاہ غزل فالج کے عارضے میں مبتلا ہوئے تھے اور گذشتہ کئی برسوں سے وہ سینے، پھیپھڑوں اور مثانے کے مختلف اَمراض میں بھی مبتلا چلے آ رہے تھے۔ ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بدھ کی صبح ساڑھے نو بجے کے قریب ان کی طبیعت اچانک بگڑنا شروع ہوگئی اور بارہ بجکر پندرہ منٹ پر ان کا انتقال ہوگیا۔ مہدی حسن کی تدفین 15جون بروز جمعہ کو ہو گی۔مہدی حسن کو 15دن قبل اسپتال میں دوبارہ داخل کیا گیا تھا اور 5 دن قبل ان کی طبیعت میں بہتری آئی جسکے بعد اہل خانہ سے بات بھی کی تھی۔80کی دہائی میں علالت کی وجہ سے مہدی حسن نے گلوکاری کا سلسلہ ترک کردیا تھا تاہم صحت بحال ہونے کے بعد انہوں نے لتا منگیشکر کے ساتھ ’’تیرا ملنا‘‘ گایا ۔اکتوبر 2010 میں ’سرحدیں‘ البم میں جاری کیا گیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ان کا آخری نغمہ تھا۔خیال رہے کہ 13 جنوری2012 کوبھی ان کی موت کی افواہ اڑی تھی لیکن ان کے بیٹے آصف مہدی نے اس کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انکے والد زیر علاج ہیں۔ مہدی حسن کے انتقال کے ساتھ غزل گائیکی کا سنہری دور ختم ہوگیا۔ گزشتہ ماہ راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا سے درخواست کی تھی کہ مہدی حسن اور ان کے اہلِ خانہ کو بھارت آنے کے لئے ویزا دیا جائے۔ راجستھان سرکار نے اُن کے علاوج و معالجہ سرکاری
سوانح حیات
مہدی حسن 18جولائی1927کو راجستھان (بھارت) ضلع جے پورکے گاؤں لونا میں پیدا ہوئے۔ 1947میں بیس سالہ مہدی حسن اہلِ خانہ کے ساتھ نقلِ وطن کر کے کراچی گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔انہوں نے مکینک کے کام میں مہارت حاصل کی اور پہلے موٹر مکینک اور اسکے بعد ٹریکٹر کے میکینک بن گئے۔ مہدی حسن ایک محنتی طالب علم کی طرح نجی مصروفیات اور گھریلو ذمہ داریوں کے باوجود موسیقی کے خیال سے غافل نہیں رہے اور انہوں نے عمر کے کسی حصّے میں بھی ریاض سے گریز نہیں کیا۔ان کا موسیقی کے معروف گھرانے کلاونت سے تعلق تھا،موسیقی کی ابتدائی تعلیم والد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان سے حاصل کی۔ مہدی حسن نے کلاسیکی موسیقی میں اپنے آپ کو متعارف کروایا، جب آٹھ سال کے تھے۔اور پچپن سے ہی گلوکاری کے اسرار و رموز سے آشنا تھے ۔مگر اس سفر کا باقاعدہ آغاز 1952 میں ریڈیو پاکستان کے کراچی سٹوڈیو سے ہوا جب انہیں وہاں ٹھمری گانے کا موقع فراہم کیا گیا اور اس کے بعد انہوں نے پیچھے نہیں دیکھا۔وہ پچیس ہزار سے زیادہ فلمی، غیر فلمی گیت اور غزلیں گا چکے ہیں۔ گویا سر کے سفر کی داستان کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ان کی آواز بہت ہی مدھر تھی، جو کہ غزل گائیکی کیلئے بالکل مناسب تھی۔ ان کی دھنیں اور موسیقی شاعر کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہیںہوگا کہ انہوںنے غزل کو اور آسان بنا کر اسے عام آدمی کے قریب تر لایا۔مہدی حسن اردو شاعری کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے اور ان کی غزلوں کا انتخاب بھی بہترین تھا۔ ریڈیوپر فیض احمد فیض کی غزل ’’گْلوں میں رنگ بھرے بادِ نور بہار چلے‘‘ پہلی مشہور غزل تھی ، فلمی گائیکی کی ابتداء فلم ’’شکار‘‘ سے کی۔ مہدی حسن نے 325 سے زائد فلموں میں بے شمار مقبول گانے گائے۔ انہوں نے تمغہ حسن کارکردگی اور ہلالِ امتیاز سمیت پاکستان کے تمام نمایاں قومی سطح کے ایوارڈ حاصل کئے، جن میں 9 نگار ایوارڈ بھی شامل ہیں، حکومت نیپال نے سب سے بڑا سویلین ایوارڈ ’’گورکھا دکشن باہو‘‘ دیاجبکہ بھارت میں انہیں ’’سہگل ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ انہوں نے امریکہ، برطانیہ، مڈل ایسٹ، بھارت، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں اپنے فن کا جادو جگایا۔ سنجیدہ حلقوں میں اْن کی حیثیت ایک غزل گائیک کے طور پر مستحکم رہی۔ اسی حیثیت میں انہوں نے برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ کیا۔ بھارت میں اْن کے احترام کا جو عالم تھا وہ لتا منگیشکر کے اس خراجِ تحسین سے ظاہر ہوا کہ مہدی حسن کے گلے میں تو بھگوان بولتے ہیں۔ نیپال کے شاہ بریندرا اْن کے احترام میں اْٹھ کے کھڑے ہوجاتے تھے اور فخر سے بتاتے تھے کہ انھیں مہدی حسن کی کئی غزلیں زبانی یاد ہیں۔پاکستان کے صدر ایوب، صدر ضیاء الحق اور صدر پرویز مشرف بھی اْن کے مداح تھے اور انھیں اعلیٰ ترین سِول اعزازات سے نواز چْکے تھے، لیکن مہدی حسن کے لیے سب سے بڑا اعزاز وہ بے پناہ مقبولیت اور محبت تھی جو انھیں عوام کے دربار سے ملی۔ ہند و پاک سے باہر بھی جہاں جہاں اْردو بولنے اور سمجھنے والے لوگ آباد ہیں، مہدی حسن کی پذیرائی ہوتی رہی اور سن 80کی دہائی میں انھوں نے اپنا بیشتر وقت یورپ اور امریکہ کے دوروں میں گزارا۔مہدی حسن کثیرالاولاد آدمی تھے۔ اْن کے چودہ بچّے ہیں، نو بیٹے اور پانچ بیٹیاں۔ اپنے بیٹوں آصف اور کامران کے علاوہ انھوں نے پوتوں کو بھی موسیقی کی تعلیم دی اور آخری عمر میں انھوں نے پڑدادا بننے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا اور اپنے پڑپوتوں کے سر پہ بھی دستِ شفقت رکھا۔اْن کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اْستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔ بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔وہ جگجیت سنگھ کے بھی استاد تھے۔ ملکہ ترنم نور جہاں نے کہا تھا کہ ایسی آواز صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتی ہے، آج مداّح اور ممدوح دونوں ہی اس دنیا میں نہیں لیکن موت نے صرف اْن کا جسدِ خاکی ہم سے چھینا ہے۔ اْن کی لازوال آواز ہمیشہ زندہ رہے گی۔راجستھان کی حکومت کی دعوت پر مہدی حسن نے 2000 میں راجستھان کا دورہ بھی کیا تھا اور اس دوران وہ اپنے آبائی گاوں لونا بھی گئے تھے۔ اور اپنے مرحوم دادا امام الدین کی قبر پر فاتحہ بھی پڑھی تھی۔وہ اس سے قبل بھی لونا گاوں کا دورہ کرچکے تھے اور گاوں کے سرکاری اسکول کی عمارت کی تعمیر میں مالی مدد بھی کی تھی۔لونا گاوں کے رہنے والے بھی مہدی حسن سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی علالت کے دوران ان کی صحت کے لئے مسلسل دعائیں کرتے رہے تھے۔
No comments:
Post a Comment