ویزا حاصل کرنیکا طریقہ کار اُکتا دینے والا عمل :پاکستان میں مقیم
کشمیری مہاجرین کو گلہ
نثار احمد ٹھوکر
مظفر آباد//حدمتارکہ کے دونوں جانب راہداری کے طریقے کار کو مزید آسانبنانے کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے بیچ طے پائے جانے والے معاہدے کےپیش نظر پاکستان اور اسکے زیر انتظام کشمیر میں آباد کشمیری مہاجرین یہتوقع کرتے ہیں کہ نئی ویزاپالیسی کے تحت منقسم خاندانوںکو سرحد کے آرپارجانے میںحائل پیچیدگیوں کا خاتمہ ہوگا۔ یاد رہے کہ مروجہ پالیسی سرحد کے
آرپار لوگوں کی نقل و حرکت میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے تاہم اس سخت گیرپالیسی کے نتیجے میں کشمیری مہاجرین جن کی تعدادتقریباً 20لاکھ کے قریبہے سب سے زیادہ متاثرہوئے۔ لاہور، گجرانوالہ، سیالکوٹ اور راولپنڈی میںمقیم کشمیری مہاجرین میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جوگذشتہ کئی برسوں سےجموں و کشمیر میں اپنے عزیزو اقارب سے ملنے سے قاصر رہی حتٰی کہ مشکلحالات میں بھی انہیں ویزا کی سہولت سے محروم رکھا گیا۔سرحد پار کشمیریوںکی نقل و حرکت پر پابندیاں اب بھی جاری ہے باوجود اسکے کہ عالمی سطح پرایک تسلیم شدہ طریقہ کارموجود ہے جس کے تحت شہریوں کو ایمرجنسی حالات(اموات ،بیماری یا حادثے ) میں فوری ویزا یا سفری دستاویزات فراہم کئےجاتے ہیں۔ پاک بھارت دوطرفہ تعلقات اور دوستی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کےپیش نظرباہمی اعتماد سازی کے کئی اقدامات کئے گے لیکن ان اقدامات کےباوجوداپنے عزیزو اقارب سے ملنے کے لئے مضطرب ایک عام کشمیری کے لئے ویزاکا حصول کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔کشمیری نژادپاکستانی شہری ڈاکٹر علیمحمد میر کا کہنا ہے کہ ویزہ حاصل کرنے کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ اورـاکتادینے والا عمل ہے جو ایک عام شہری کی سمجھ سے باہر ہے۔انکا کہنا تھاکہ 2010میںانہوں نے سرینگر میں اپنے قریبی رشتہ دار کی شادی کی تقریبمیںشرکت کرنے کے غرض سے ویزا کے لئے درخواست دی لیکن تمام تر ضروریاتپورا کرنے کے باوجود بھی انہیںویزہ حاصل کرنے میںگیارہ مہینے لگے۔انہوںنے کہا کہ امید کی جارہی ہے کہ حالیہ پاک بھارت ویزہ پالیسی کے نتیجے میںطریقے کار کو مذید آسان کیا جائے گا۔ڈاکٹرمیر کا کہنا تھا کہ ایسےاقدامات ماضی میں بھی کئے گئے پر افسوس انکا کوئی خاظر خواہ نتیجہ برآمدنہیں ہوسکا۔ـ"ماضی میں بھی کئی مرتبہ ایسی امیدیں دلائی گئیں پر ہر دفعہیہ امیدیںخوداپنی موت مر گئیںـ"۔انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک عامشہری کے لیے ویزاحاصل کرنے کا یہ عمل مزید پیچیدہ ہوچکا ہے۔یہ بات قابلذکر ہے کہ جموں و کشمیرکا دورہ کرنے کے خواہش مند افراد میں اکثیریت انکیہے جن کا تعلق کشمیری مہاجرین کی پرانی نسل سے ہے۔اپنے آبائی وطن سےہجرت کئے کئی دہائیں بیت چکی ہیں لیکن اپنے عزیزو اقارب سے ملنے کی تڑپانکے دلوں میں اب بھی موجود ہے جو شائد کبھی ختم نہیں ہوگی۔اسلام آبادمیں مقیم معروف کشمیری دانشور ارشاد محمود کا کہنا ہے کہ راہداری کےپیچید عمل کی وجہ سے کشمیری کمیونٹی بر ی طرح متاثر ہوئی ہے۔انکا کہناتھا کہ جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کے خواہشمند افرادکے لئے جانچ پڑتال کاایک طویل عمل ہے جس میںبعض اوقات کئی مہینے لگتے ہیں۔حالیہ پیش رفت پرتبصرہ کرتے ہوئے کشمیری نژاد صحافی ذوالفقار علی کا کہنا تھا کہ اگر چہبھارت اور پاکستان نے ویزاپالیسی کو مذیدنرم کرنے پر اتفاق کیا ہے تاہماس پالیسی کاکشمیری کمیونٹی کو تب تک کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا جبتک ،پولیس رپورٹ، سپانسرشپ سرٹیفکیٹ یا یوٹلیٹی بلز جیسے شرائط موجود
ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کا کشمیریوں کو اسی صورت میں فائدہ ہوگااگر یہ پابندیاں یکسر ختم کی جائیں۔گو کہ بھارت اور پاکستان نے منقسمخاندانوںکو ریلف مہیا کرنے کی غرض سے 2005میںبس سروس کا آغاز کیا ،اس بسسروس سے پرانے کشمیر مہاجرین کو براہ راست فائدہ ہوا لیکن حالیہ کشمیریمہاجرین (1990)جن کی پریشاناںاور مصائب پرانے کشمیر یوں سے کئی زیادہ
سنگین ہے کو ابھی تک کوئی ریلیف نہیں مل سکا۔بالخصوص 1990میںحد متارکہعبور کرنے والے کشمیر نوجوان جو اب پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے مختلفعلاقوں میں آباد ہیں انکی ضروریات اوراپنے پیاروں سے ملنے کی آرزوابھیتک پوری نہ ہوسکی۔کیونکہ قواعد و ضوابط کے تحت وہ سرینگر مظفرآباد بسسروس میں سفر کرنے کے حقدار نہیں ہیں۔دوسری جانب کشمیر وادی میں انکے
والدین اور رشتہ دارتقریباًاسی قسم کی پریشانوںمیں مبتلا ہیں۔انہیں ناتوپاسپورٹ اور نا ہی بس پرمٹ ایشو کئے جاتے ہیں۔ایڈوکیٹ محمد اسلم جنکاتعلق جنوبی کشمیر کے ضلع اسلام آباد سے ہے نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہاعتماد سازی کاعمل 1990کے مہاجرین کے مسائل حل کرنے میںبری طرح ناکامہوا۔انہوں نے کہا"ہمارے لئے LOCاب بھی دیوار برلن کے مانند ہے نا ہمیںاور نا ہی حد متارکہ کے دوسری جانب ہمارے رشتہ دارکو سفر کرنے کی اجازتہے"۔ایک اور کشمیر ی نوجوان جوکئی برسوں سے اسلام آباد میں اپنا کاروبارکرتا ہے نے کہا کہ"با اثرلوگوں کاایک خاص طبقہ بس سروس سے مستفید ہورہاہے جبکہ وہ لوگ جس سب سے زیادہ مستحق ہیں اب بھی دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں"۔انکا کہنا تھا کہ انکے بوڑھے والدین نے کئی دفعہ بس پرمٹ کے لئے
درخواست دی لیکن ہر دفعہ انہیں مایوس لوٹنا پڑھا.سول سوسائیٹی کےنمائندوں نے کشمیری کمیونٹی کو درپیش مسائل کا مسئلہ کئی دفعہ اُٹھایالیکن ابھی تک موجودہ Statsquoمیں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔پاکستانی زیرانتظا م کشمیر کی دارلحکومت مظفر آباد میں حال ہی میں منعقدہ انٹراکشمیر وومن ڈائیلاگ میں بھی اس مسئلے کی گونج سنائی دی جس میںحد متارکہکے دونوں جانب تعلق رکھنے والی خواتین مندوبین نے انٹری پرمٹ کے حوالے سےانتظامی اور سیکورٹی پروسیجر کو مذید آسان کرنے کی سفارش کی۔انہوں نے
دونوں ملکوں پر زور دیا کہ سفری سہولیات کومزید توسیع دی جائے تاکہ1990کی مہاجرینTrans-LoCبس سروس سے مستفید ہوسکیں۔
The report was published in Kashmir Uzma on 14 December 2012
No comments:
Post a Comment