متبادل طریقہ کار بھی آپشن
پاکستان دورہ کا مقصد پورا ہوا،آگے بڑھنے کی تجاویز سے آگاہی حاصل کی
دورہ مکمل کرنے کے بعد کشمیر عظمیٰ کے ساتھ میرواعظ کا خصوصی انٹرویو
نثار احمد ٹھو کر
اسلام آباد //حریت(ع) چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے ’’ جہاں تک مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کا تعلق ہے ہمیں اعتماد سازی کے عمل اور سیاسی حل میں فرق واضع کرنا چاہیے ۔ہمارا یہ ماننا ہے کہ اعتماد سازی کے اقدامات خواہ وہ بس سروس ہویاحد متارکہ کے دونوں جانب تجارت ہو یہ کسی طور پر بھی مسئلہ کشمیر کا حل نہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ یا توآپ بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیا جائے یاپھر مسئلے کے پر امن حل کے حوالے سے ایک متبادل طریقہ کار وضع کریں جسمیں تمام فریق بھارت ، پاکستان اور کشمیری مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا حل نکالیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو کے دوران کیا۔
سوال:اب جبکہ آپ پاکستان کا دورہ مکمل کرچکے ہیں، دورے کے دوران آپ کوپاکستان کی سیاسی قیادت،،حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین سے ملنے کو موقع ملا ۔ اس دورے کے حوالے سے مجموعی طور پر آپکے کیا تاثرات ہیں؟
میرواعظ:جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ تقریباً پانچ سال بعد حریت (ع) نے حکومت پاکستان کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کیا ۔پچھلی دفعہ حریت(ع) نے 2007 میںپاکستان کا دورہ کیا تھا۔سو ہم سمجھتے ہیں کہ ایک طویل مدت کے بعد ہمیں پاکستانی قیادت سے مل بیٹھنے کا ایک موقعہ ملا ہے جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔کیونکہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا نہ صرف ایک اہم فریق ہے بلکہ انہوں نے ہمیشہ سیاسی، اخلاقی اور عالمی سطح پر کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی بھر پور حمایت کی۔بنیاد ی طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ حریت کے حالیہ دورہ پاکستان کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ ایک ایساعمل اور ایسامضبوط اور مربوط طریقہ کار وضع کیا جائے تاکہ ہم مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے جوپراسیس ہے اسکوصحیح اور موثرانداز میں آگے بڑھا سکیں۔جہاں تک موجودہ دورے کا تعلق ہے ہم مجموعی طور پر اس دورے سے مطمئن ہیں، جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ ہم نے پاکستان کی پوری سیاسی قیادت سے ملاقات کی،انکے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں طرف کی سیاسی قیادت کے درمیان رابطوں کا سلسلہ آئندہ بھی وقتاً فوقتاًجاری رہنا چاہیے تاکہ ہمارے پاس آگے بڑھنے کے لئے ایک واضع طریقہ کار موجود ہو جس کے تحت مناسب سمت میں آگے بڑھاجاسکے۔تاہم اس حوالے سے حریت (ع)کا نقطہ نظر واضع ہے کہ یہ عمل All Inclusiveہونا چایئے تاکہ کشمیرکی موجودہ صورتحال ،زمینی حقائق اور کشمیریوں کاجو نقطہ نظرہے کو بھی اس میں شامل کیا جاسکے۔دورے کے دوران ہمیںپاکستان کی سول سوسائیٹی سابق بیوروکریٹس اور دانشور حضرات سے بھی گفتگوکرنے کا موقعہ ملاجس میں ہمیںیہ جاننے کا بھی موقعہ ملا کہ وہ کشمیر کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں اور انکے پاس آگے بڑھنے کے لئے کونسی تجاویز ہیں۔
سوال :کیا آپ یہ سمجھتے ہیںکہ آپ اپنے موقف کو صحیح انداز میں پیش کرنے میں کامیا ب ہوئے؟
میرواعظ :جی ہاں سب سے اہم مسئلہ جو بنیادی طور پر ہمارے اس دورے کا بنیادی مقصد تھاوہ کشمیری قیادت کا مذاکراتی عمل میں شامل کرنے کا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس معاملے کوواضع طور پر اجاگر کرنے میں کامیاب ہوئے۔اور میرا خیال ہے کہ جن لوگوں سے ہم ملے تبادلہ خیال کا موقعہ ملا انہوں نے اس کو بڑے اچھے انداز میںلیا(to be honest enough it has been received well)۔نہ صرف یہ کہ حکومتی سطح پر بلکہ ہم نے عوامی سطح پر بھی یہ محسوس کیا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر بنیادی طور پر کشمیریوںکے متعلق ہے اور بعد میں یہ مسئلہ پاکستان یا بھارت کے بارے میں ہے۔اسکے ساتھ ہی میں سمجھتا ہوں کی عالمی سطح پر جو تبدیلیاںرونماء ہوئی ہیں انکا کشمیر کی تحریک پر ایک خاصہ اثر پڑا ہے، ہم نے افغانستان کی صورتحال ، عرب میں برپا ہونی والی عوامی تحریکوںاور دنیا بھر میں بدلتی ہوئی صوتحال پر بھی بات کی۔ہمارا یہ ماننا ہے کہ اب بتدریج یہ رجحان زور پکڑتا جارہا ہے کہ وہ وقت گذر چکا ہے کہ جہاںبھارت اور پاکستان دوطرفہ طور پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے اور کشمیری اس فیصلے پر خاموش تماشائی کی طرح دیکھتے رہیں گے۔میرا خیال ہے کہ اب ایساہر گز ممکن نہیں۔ہم یہ واضع کر چکے ہیں کہ کشمیری، پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکراتی عمل کی حمائت کرتے ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوں تاہم حریت(ع) کا یہ موقف ہے کہ مذاکرات تب تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کشمیری قیادت کو بات چیت میں شامل نہیں کیا جاتا۔ہم نے یہ بھی واضع کیا کہ مذاکرات کا مدعاو مقصد مسئلہ کشمیر کا حل ہونا چاہیے۔اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے دورے کے دوران اپنے موقف کو صحیح اور موثرانداز میں پیش کیااور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کھل کر اپنے موقف کو بیان کیا۔
سوال :حریت (ع) کے رہنمائوں نے رعائیات Concessionsکے حوالے سے بھی بات کی اس بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟
میرواعظ :میرا خیال ہے کہ جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل کا تعلق ہے ہمیں اعتماد سازی کے عمل اور سیاسی حل میں فرق واضع کرنا چاہیے۔ہمارا یہ ماننا ہے کہ اعتماد سازی کے اقدامات خواہ وہ بس سروس ہویاحد متارکہ کے دونوں جانب تجارت ہو یہ کسی طور پر بھی مسئلہ کشمیر کا حل نہیں۔یہ سارے اقدامات جو میں سمجھتا ہوں مثبت ہیں ان سے عوام کو آسانیاں ، انکے مسائل میں کمی یاماحول کو سازگار بنانے میں مددگار تو ثابت ہوسکتے ہیں لیکن یہ قطعاً مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہیں۔سو میں اس نقطہ نظر اور اس سوچ سے بالکل اختلاف کرتا ہوں، اورظاہر ہے کہ یہ سوچ کہ اعتماد سازی کے اقدامات ہی آخرکار مسئلہ کشمیر کا حل ہیں حریت کی سوچ کے بالکل برعکس ہے ۔اعتمادسازے کے اقدامات کے حوالے سے ہمارا یہ موقف ہے کہ خواہ تجارت ہو، بس سروس ہو یا آرپارلوگوں کے آنے جانے کا معاملہ ہے ایسے اقدامات کو فروغ ملنا چاہیے اس سے لوگوں کی نفسیات پر ایک مثبت اثر پڑنے کے ساتھ انکا اعتماد بھی بحال ہوجاتا ہے۔ لیکن جہاں تک مسئلہ کے حل کا تعلق ہے حریت کا یہ ماننا ہے کہ یہ سیاسی ہونا چاہیے۔ یا تو آپ بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کریں یاآپ مسئلے کے پر امن حل کے حوالے سے ایک متبادل طریقہ کار وضع کریں جس میں تمام فریق بھارت ، پاکستان اور کشمیری مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا حل نکالیں۔لہٰذا حریت (ع) کا موقف اس حوالے سے بالکل صاف اور واضع ہے وہاں کسی قسم کا ابہام یا دورائے نہیںکہ اعتماد سازی کے اقدامات کو کشمیر کے حل طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔2006, 2007, 2008میں مشرف فارمولہ آیا، یہاں تک کہ اس فارمولے کو پاکستان کی establishmentاور حکومت کی طرف سے بھی بھر پور حمایت حاصل تھی۔ حریت (ع)نے بھی اس فارمولے کی حمایت کی تھی لیکن صرف اس حد تک کہ ا س فارمولے کو اعتماد ساز ی یعنیConfidence Buildingکی جانب پہلاقدم کے طورپر دیکھا جانا چاہیے ۔ہم نے اس وقت بھی واضح کیا تھا کہ اس سے کسی طرح بھی مسئلے کے مستقل حل کے تناظر میں نہیں دیکھا جائے۔
سوال :1953یا اندرونی خود مختاری کے حوالے سے حریت(ع) کا کیا موقف ہے؟
میرواعظ :اندرونی خودمختاری مسئلہ کا حل نہیں،تاہم اندرونی خودمختاری کا جہاں تک تعلق ہے یہ بھارت اور کشمیریوں کے درمیان دوطرفہ معاہدہ ہوسکتا ہے لیکن ہم ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں کہ ایسے معاہدے ناکام ہوئے ہیں۔1953یا 1975میں بھی اس قسم کے معاہدے ہوئے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ دوطرفہ معاہدہ خواہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہو یا بھارت اور کشمیری قیادت کے درمیان ہویہ کسی طور پر بھی مسئلے کا حل نہیں۔ہمار اموقف ہے کہ یہ تینوں فریقوں کے درمیان ہونا چاہیے جس میں بھارت پاکستان اور کشمیری شامل ہوں۔دوسری بات ہے کہ اندرونی خودمختاری کی جب آپ بات کرتے ہیں تو آپ مسئلہ کشمیر کے دوسرےAspect یعنی آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو نظر انداز کرتے ہیں ۔سو ہمارا یہ ماننا ہے کہ مسئلے کے مستقل حل کیلئے آپکو ان تمام پہلوں کو ملحوظ نظر رکھنا پڑے گا۔اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے پاکستان آکر سب سے پہلے مظفر آباد کا دورہ کیا اور وہاں سے interaction processکا با قاعدہ آغاز کیا تھا۔لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلے کے حل کے حوالے سے تمام فریقوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے ۔تاہم کسی بھی حل کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں چار اہم مراکز ہیں جن کے اردگرد مسئلے کا حل اُبھرسکتا ہے اور وہ ہیں مظفر آباد، سرینگر، اسلام آباد اور نئی دہلی۔اندرونی خودمختاری کے حوالے سے کشمیریوں کو ایک تلخ تجربہ بھی ہوا ہے۔ہم نے دیکھا کہ کشمیرکا اپنا صدر، وزیر اعظم اور اپنا ایک اقتصادی نظام ہوا کرتا تھالیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بھارت نے عملی طور اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور بدقسمتی سے ہند نواز جماعتیں اس سارے عمل میں برابر کی شریک ہیں۔لہٰذا حریت کا موقف جو ہے وہ بالکل واضع ہے کہ اندرونی سطح پر کسی قسم کا حل ممکن نہیں۔
سوال :عمر عبداللہ کے حالیہ بیان جس میں انہوں نے کہا کہ حریت(ع) کو بھارت کی قیادت سے بھی مذاکرات کرنے چاہیں ۔اس ضمن میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟
میراعظ :حریت (ع) کبھی بھی ایک مثبت اور با مقصد بات چیت کی خلاف نہیں رہی لیکن بنیادی طور پر جو معمہ ہے (Problem)وہ بھارت کے ساتھ ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کا بنیادی مدعا و مقصد مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔میرا خیال ہے کہ حریت(ع) واحد گروپ ہے کشمیر کے اندر جس نے بھارتی حکومت کے ساتھ کئی دفعہ مذاکرات کئے اور ہم بھارتی وزیر اعظم سے بھی ملے۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات کس لئے؟ہمارا ماننا ہے کہ مذاکرات مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے کئے جاتے ہیںاور اس مقصد کیلئے راہ ہموار کی جاتی ہے، ماحوال کو سازگار بنانا پڑتا ہے۔کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات ، ہلاکتیں، تشددّ اور انسانی حقوق کی پامالیاں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ ایک ایسی صوتحال میں ہیںجہاں سیاسی قائدین پر پابندیاں ہیں،لوگ کئی سالوں سے قیدو بند کی سعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور جیلوں میں سڑھ رہے ہیں،ریاست میں کالے قوانین جیسے AFSPAاب بھی نافذالعمل ہے۔افسپا کا مسئلہ جو میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تنسیخ سے عام لوگوں کو ریلیف ملے گا لیکن بھارت کی سیاسی قیادت اور حتی کہ اسکی فوجی قیادت بھی اس کی تنسیخ میں ایک بہت بڑی رکائوٹ باوجود اسکے کہ بھارت تسلیم کرتا ہے کہ ریاست میں تشددّ میں کمی واقعہ ہوئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر سے بھارت کے ایک سپاہی کو بھی نہیں نکالا گیا۔سو میرا خیال ہے کہ بھار ت کوچاہیے کہ وہ ماحول کو سازگار بنائے ۔
سوال :حریت (ع) نے بھارت کو کونسی تجاویز دی تھیں؟
میرواعظ :2006میںاعتماد سازی کے حوالے سے حریت (ع) نے جو بھارت کوتجاویز دی تھیںبد قسمتی سے ایک تجویز پر بھی عمل در آمد نہیں ہوسکا۔ہم نے کالے قوانین کو فی لفورمنسوخ کرے کی تجویز کے علاوہ انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث افراد(فوجی، پولیس اور دیگر متعلقہ افراد)کا احتساب، سیاسی اسیران کی رہائی،لاپتہ افراد اور mass gravesکا معاملہ اٹھایا تھا۔اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی سنجیدہ مسائل ہیں جہاںبھارت کو لچک دکھانی ہوگی۔اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر بھارت ان تجاوزیز پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرتا ہے تومیں سمجھتا ہوں کہ ایک عمل کا آغاز کیا جاسکتا ہے جہاںبھارت سے بھی بات چیت ہوسکتی ہے ۔
سوال :حریت قیادت کے مابین اتحاد ایک اہم اور Hot Issueہے اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
میروعظ :جہاں تک اتحاد کی بات ہے ،ہم سمجھتے ہیں کہ اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں کہ اتحاد میں طاقت ہے۔لیکن جہاں تک ہماری منزل (end-goal)اور مقصد کاتعلق ہے کشمیر میں تمام تحریک نواز جماعتوں کا کشمیر ی عوام کے حق خودارادیت کے حوالے سے یکساں موقف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کشمیری عوام کو از خوداپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔ اور تمام تحریک نوازوں کا یہ یکساں موقف ہے کہ ریاست جموں و کشمیر جو 1947میںexistکرتی تھی ایک متنازعہ ریاست ہے جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
اور میرا خیال ہے کہ ہم بیشتر نقطوں پرآپس میں متفق ہیںاور ان نکات پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔تاہم جہاں تک طریقہ کار کا تعلق ہے اس حوالے سے کچھ اختلافات ضرور ہیں لیکن اختلاف کا ہونا کسی بھی جمہوری اور عوامی تحریک کا حصہ ہیں۔اسکا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ صورتحال مایوس کن ہے ،میرا خیال ہے کہ تمام تحریک نواز ایک ہی مقصد کیلئے جدو جہد کر رہے ہیں۔حالانکہ اختلاف کے باوجو بھی ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم مشترکہ طور آگے بڑھ سکتے ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ، 2007, 2008, 2009اور 2010میں ہم نے common minimum programsکے تحت ایک ساتھ کام کیا اورمشترکہ طور پروگرام ترتیب دئے۔سو میں سمجھتا ہوں کی اتحاد کی لاٹھی کو استعمال کرکے حریت کو ہانکنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ایک اور اہم بات جو ہمیں ذہن نشین کرنی چاہیے یہ ایک جمہوری اورعوامی تحریک ہے اور اختلاف رائے کا ہونا ہی جمہوریت کااصل حسن ہے۔
سوال :جہاں تک مسئلہ کشمیرکے out of the box solutionکی بات ہے کیا آپ نے پاکستانی سیاسی قیادت میں کسی قسم کی تبدیلی نظر آئی؟
میرواعظ :یقینا پاکستان کی سیاسی،دانشور اور ادبی حلقوںمیں اس بات کو محسوس کیا جاتا ہے کہ پچھلے 65سالوں سے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں،یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ مختلف تجاوزیز یا optionsپر بات کریں گے،تبادلہ خیال کرنا شروع کریںگے۔اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے مختلف حلقوں میں اس بات کا احساس ہے کہ نہ صرف مختلفOptionsپر غوروخوض ہونا چاہیے بلکہ ایسا حل تلاش کیا جائے جس میں کشمیریوں کی رائے شامل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مقصد کے حصول میں بھی کامیاب ہو سکیںگے۔پچھلی دفعہ ہم نے دیکھا کہ لوگ یہاں اکثر پاک بھارت تناظر میں بات کرتے تھے لیکن اب کے بار مجھے یوںلگا کہ لوگوںکی جو سوچ ہے اسمیں بتدریج تبدیلی نظر آرہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پیچیدہ مسائل جسیے کشمیر کو حل کرنے کیلئے مختلف آپشنز پر بھی بات ہونی چاہیے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بھارت اور پاکستان دو طرفہ طور پر کشمیریوں کے بغیر Optionsپر بات کریں گے۔ہمارا یہ موقف ہے کہ کشمیریوں کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی optionقابل قبول نہیں ہوگا۔لہٰذا یہ اپروچ حریت کے آئین کے عین مطابق بھی ہے کہ یا مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق حل کیا جائے یاایک ایسا mechanismتیار کیا جائے جس میں تینوں فریق پاکستان، بھارت اور کشمیری مل بیٹھ کر تنازعہ کا حل تلاش کریں ۔اور اگر ایسے عمل کا آغاز ہوتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس ضمن میں کشمیری لیڈرشپ کا اہم رول ہے۔
سوال :Intra-Kashmir Linkجو اس پورے پراسیس میں کہیں نظر نہیں آرہی ہے ۔اس بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟
میرواعظ :یقینا ، کشمیر کے حوالے سے یہ ایک اہم پہلو ہے جس سے ہر سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے،اور میں سمجھتا ہوں کہ عالمی سطح پر بھی کسی کو اس سوچ کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم ایک ایسی صورتحال میں ہیں جہاںلوگوں کے درمیان سیزفائر لائن ہے، لوگ منقسم ہیں، خاندانوں کے خاندان منقسم ہیں۔ہم نے حکومت پاکستان اور سیاسی لیڈرشپ پر بھی زور دیا ہے کہ آئندہ الیکشن کے بعد جو بھی حکومت آئے گی اس سے چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے اس اہم پہلو کواجاگر کرے۔اور میں سمجھتاہوں کہ حکومت ہند اور پاکستان دونوں کو چاہیے کہ وہ اس پالیسی پر مکمل عمل درآمد کریں جس کے تحت کشمیریوں کو ایک دوسرے سے ملنے اور آزادنہ طور پر تبادلہ خیال کرنے کا موقعہ ملے۔دوسری بات ہے کہ کشمیریوں بالخصوص کشمیر ی لیڈرشپ کومسئلے کے حل کے حوالے سے اوراپنے کردار کے تعین کے حوالے سے بھی کچھ مسائل کا سامناہے، نہ صرف سرینگر ، جموں اور لداخ بلکہ پاکستان میں بھی گلگت بلتستان اور شمالی علاقہ جات کے حوالے سے بھی ابہام ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق ملیں ، وہاں عوام کو ترقی اور روشن مستقبل کے حوالے سے برابر مواقعے میسر آسکیںلیکن یہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کے ساتھ منسلک ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ نہ بھارت کو لداخ کے حوالے سے اور نا ہی پاکستان کوشمالی علاقہ جات کے حوالے سے کچھ کرسکتا ہے۔سو میں سمجھتا ہوں یہ پیچیدہ مسائل ہیںجن کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
سوال :آپکی نظر میں آگے بڑھنے کے لئے کونسا طریقہ کار اختیار کیا جاناچاہیے؟
میرواعظ :میری نظر میں سب سے پہلا قدم جو ہے وہ ریاست سے بھارتی فوج کاانخلاء ہے، کیونکہ فوج کی موجودگی سب سے بڑی رکائوٹ اور عوام کے سامنے سب سے بڑی اڈچن ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ فوجی انخلاء ریاست کے دونوں طرف ہونا چاہیے۔اگر بھارت اپنی فوجی نکالنے پر آمادہ ہوتا ہے تو پاکستان کو بھی reciprocateکرنا ہوگا۔فوجی انخلاء سے عام لوگوں کو کچھ ریلیف ملے گا اور ایک ایسا ماحول پیدا ہوگا جسمیںآپ، خوف ، تشددّ اورریاستی دہشت گردی کے خوف سے آزاد ہونگے اورآپ مختلف Optionsپر بات کرنا شروع کریں گے جس سے یقینا مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کی جانب راہ ہموار ہوگی۔اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر کا پر امن حل پورے خطے کی امن وسلامتی اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ نیوکلیائی ہتھیاروں کی دوڑ میںعربوں ڈالر صرف کئے جاتے ہیں اور اگر مسئلہ کشمیر کوپر امن طور پر حل کیا جاتا تو یہی رقم جو ہے غریب عوام کی فلاح و بہبو د پہ صرف ہونے کے ساتھ ساتھ خطے میں ، بھوک، افلاس اور بے روزگاری جیسے سلگتے مسائل کو بھی آسانی سے نمٹا جاسکتا تھا۔اور میں سمجھتا ہوں کہ دونوں طرف کی سیاسی قیادت پر باری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، انہیں چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جرأت مندی کا مظاہرہ کریںتاکہ خطے میں پائیدار امن کے قیام کو ممکن بنایا جاسکے۔
No comments:
Post a Comment